ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے
شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے
کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
ہشیار ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے
ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
کوئی بھی وقت ہو کبھی ہوتا نہیں جدا
کتنا عزیز اس کی جدائی کا وقت ہے
دل نے کہا کہ شام شب وصل سے نہ بھاگ
اب پک چکی ہے فصل کٹائی کا وقت ہے
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
غزل
ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے
احمد مشتاق