اب منزل صدا سے سفر کر رہے ہیں ہم
یعنی دل سکوت میں گھر کر رہے ہیں ہم
کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں
ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم
گویا زمین کم تھی تگ و تاز کے لیے
پیمائش نجوم و قمر کر رہے ہیں ہم
کافی نہ تھا جمال رخ سادۂ بہار
زیبائش گیاہ و شجر کر رہے ہیں ہم
غزل
اب منزل صدا سے سفر کر رہے ہیں ہم
احمد مشتاق