EN हिंदी
اب منزل صدا سے سفر کر رہے ہیں ہم | شیح شیری
ab manzil-e-sada se safar kar rahe hain hum

غزل

اب منزل صدا سے سفر کر رہے ہیں ہم

احمد مشتاق

;

اب منزل صدا سے سفر کر رہے ہیں ہم
یعنی دل سکوت میں گھر کر رہے ہیں ہم

کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں
ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم

گویا زمین کم تھی تگ و تاز کے لیے
پیمائش نجوم و قمر کر رہے ہیں ہم

کافی نہ تھا جمال رخ سادۂ بہار
زیبائش گیاہ و شجر کر رہے ہیں ہم