EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا

احمد مشتاق




رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا

احمد مشتاق




روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

احمد مشتاق




سنگ اٹھانا تو بڑی بات ہے اب شہر کے لوگ
آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے دیوانے کو

احمد مشتاق




تماشہ گاہ جہاں میں مجال دید کسے
یہی بہت ہے اگر سرسری گزر جائیں

احمد مشتاق




تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

احمد مشتاق




ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

احمد مشتاق