تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
احمد مشتاق
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
احمد مشتاق
تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
احمد مشتاق
عمر بھر دکھ سہتے سہتے آخر اتنا تو ہوا
اپنی چپ کو دیکھ لیتا ہوں صدا بنتے ہوئے
احمد مشتاق
وہاں سلام کو آتی ہے ننگے پاؤں بہار
کھلے تھے پھول جہاں تیرے مسکرانے سے
احمد مشتاق
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
احمد مشتاق
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
احمد مشتاق