EN हिंदी
ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو | شیح شیری
hath se napta hun dard ki gahrai ko

غزل

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو

احمد مشتاق

;

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مری تنہائی کو

تھا جو سینے میں چراغ دل پر خوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو

دل افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

نگۂ ناز نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو

دل ہے نیرنگی ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو