ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغ دل پر خوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دل افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگۂ ناز نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو
دل ہے نیرنگی ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو
غزل
ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
احمد مشتاق