EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں

احمد مشتاق




گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے

احمد مشتاق




گزرے ہزار بادل پلکوں کے سائے سائے
اترے ہزار سورج اک شہ نشین دل پر

احمد مشتاق




ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا

احمد مشتاق




ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو

احمد مشتاق




ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت
تو گل تراشتے ہیں تتلیاں بناتے ہیں

احمد مشتاق




ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں

احمد مشتاق