EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مجھ کو یہ دربدری تو نے ہی بخشی ہے مگر
جب چلی گھر سے تو میں نام ترا لے کے چلی

نسیم نکہت




آوازوں کی بھیڑ میں اتنے شور شرابے میں
اپنی بھی اک رائے رکھنا کتنا مشکل ہے

نسیم سحر




بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا
نہ جانے آج یہاں کون مارا جائے گا

نسیم سحر




دیے اب شہر میں روشن نہیں ہیں
ہوا کی حکمرانی ہو گئی کیا

نسیم سحر




حدود وقت کے دروازے منتظر ہیں نسیمؔ
کہ تو یہ فاصلے کر کے عبور دستک دے

نسیم سحر




جو بات کی تھی ہوا میں بکھرنے والی تھی
جو خط لکھا تھا وہ پرزوں میں بٹنے والا تھا

نسیم سحر




جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے
تو گویا پھول سے خوشبو کشید کر لی ہے

نسیم سحر