EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ ظلم بھی اب ظلم کی حد تک نہیں کرتے
آخر انہیں کس بات کا احساس ہوا ہے

نسیم شاہجہانپوری




ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درس گاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی

نصیر احمد ناصر




ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




جب پکارا کسی مسافر نے
راستے کھائیوں میں چیخ اٹھے

نصیر احمد ناصر




خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں
سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے

نصیر احمد ناصر