اس طرف سے کوئی طوفان ہوا لے کے چلی
اور ادھر میں بھی ہتھیلی پہ دیا لے کے چلی
مجھ کو یہ دربدری تو نے ہی بخشی ہے مگر
جب چلی گھر سے تو میں نام ترا لے کے چلی
حادثے راہ میں تھے اور سفر ظالم تھا
چند معصوم لبوں سے میں دعا لے کے چلی
مال اگر لے کے سبھی آئے تری محفل میں
مرے آنچل میں وفا تھی میں وفا لے کے چلی
سب جہاں ہاتھ پسارے ہوئے آئے نکہتؔ
ایسے بازار میں میں اپنی انا لے کے چلی
غزل
اس طرف سے کوئی طوفان ہوا لے کے چلی
نسیم نکہت