دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے
خود کو سائے سائے رکھنا کتنا مشکل ہے
ظاہر میں جو رستہ سیدھا لگتا ہو اس پر
اپنے پیر جمائے رکھنا کتنا مشکل ہے
آوازوں کی بھیڑ میں اتنے شور شرابے میں
اپنی بھی اک رائے رکھنا کتنا مشکل ہے
ہم سے پوچھو ہم دل کو سمجھایا کرتے تھے
وحشی کو سمجھائے رکھنا کتنا مشکل ہے
صرف پرندے کو معلوم ہے تیز ہواؤں میں
اپنے پر پھیلائے رکھنا کتنا مشکل ہے
آج کی رات ہوائیں بے حد سرکش لگتی ہیں
آج چراغ جلائے رکھنا کتنا مشکل ہے
دوستیوں اور دشمنیوں کی زد میں رہ کے نسیمؔ
اپنا آپ بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے
غزل
دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے
نسیم سحر