EN हिंदी
دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے | شیح شیری
dhup se jism bachae rakhna kitna mushkil hai

غزل

دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے

نسیم سحر

;

دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے
خود کو سائے سائے رکھنا کتنا مشکل ہے

ظاہر میں جو رستہ سیدھا لگتا ہو اس پر
اپنے پیر جمائے رکھنا کتنا مشکل ہے

آوازوں کی بھیڑ میں اتنے شور شرابے میں
اپنی بھی اک رائے رکھنا کتنا مشکل ہے

ہم سے پوچھو ہم دل کو سمجھایا کرتے تھے
وحشی کو سمجھائے رکھنا کتنا مشکل ہے

صرف پرندے کو معلوم ہے تیز ہواؤں میں
اپنے پر پھیلائے رکھنا کتنا مشکل ہے

آج کی رات ہوائیں بے حد سرکش لگتی ہیں
آج چراغ جلائے رکھنا کتنا مشکل ہے

دوستیوں اور دشمنیوں کی زد میں رہ کے نسیمؔ
اپنا آپ بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے