EN हिंदी
قبائے جاں پرانی ہو گئی کیا | شیح شیری
qaba-e-jaan purani ho gai kya

غزل

قبائے جاں پرانی ہو گئی کیا

نسیم سحر

;

قبائے جاں پرانی ہو گئی کیا
حقیقت بھی کہانی ہو گئی کیا

فسردہ پھر ہے اس بستی کا موسم
کہیں پھر ناگہانی ہو گئی کیا

دیے اب شہر میں روشن نہیں ہیں
ہوا کی حکمرانی ہو گئی کیا

روابط دھوپ سے ہیں اب تمہارے
بہت بے سائبانی ہو گئی کیا

نسیمؔ اس شخص سے محروم ہو کر
تری جادو بیانی ہو گئی کیا