EN हिंदी
جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے | شیح شیری
jo yaad-e-yar se guft-o-shunid kar li hai

غزل

جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے

نسیم سحر

;

جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے
تو گویا پھول سے خوشبو کشید کر لی ہے

جدائیوں میں بھی ڈھونڈی ہیں قربتیں میں نے
ضرر رساں تھی جو شے وہ مفید کر لی ہے

نہیں کھلے تھے جو منظر مری بصارت پر
تصورات میں ان کی بھی دید کر لی ہے

ستارے ٹانک دیے ہیں فلک کی چادر پر
اور اپنی چادر شب بے نوید کر لی ہے

میں چاہتا تو اسے کچھ قریب لے آتا
مسرتوں کی جو ساعت بعید کر لی ہے

اسے تو دکھ ہی نہیں کچھ مری جدائی کا
سزا خود اپنے لیے ہی شدید کر لی ہے

اسے بھلانے کی کوشش میں یاد کر کر کے
خود اپنی زیست ہی مشکل مزید کر لی ہے

حسین ابن علی کی طرف ہی لوٹیں گے
جنہوں نے بیعت فکر یزید کر لی ہے

عطائے میرؔ ہے مجھ پر کہ میں نے بھی روشن
غزل کی شمع بطرز جدید کر لی ہے

جچا ہے اب کہیں جا کر نسیمؔ جامۂ زیست
کہیں کہیں سے جو قطع و برید کر لی ہے