کوئی تو ذہن کے در پر ضرور دستک دے
اگر شعور نہ دے لا شعور دستک دے
طلوع صبح کا منظر عجیب ہوتا ہے
جب آسماں سے صدائے طیور دستک دے
اس انتظار میں ہے میرا قصر بے خوابی
کہ کوئی نیند پری کوئی حور دستک دے
فصیل شہر تمنا کی تیرگی بھی چھٹے
کبھی تو اس پہ کوئی صبح نور دستک دے
پھر ایک بار عذاب شکستگی سے گزر
پھر اس کے در پہ دل ناصبور دستک دے
انا کے خول سے نکلیں تو یوں بھی ممکن ہے
در فقیر پہ دست غرور دستک دے
ہم اور نور کی خیرات مانگنے جائیں
ہمارے در پہ تو خود کوہ طور دستک دے
مجھے غیاب کا عالم زیادہ راس آیا
مگر کبھی کبھی شوق ظہور دستک دے
حدود وقت کے دروازے منتظر ہیں نسیمؔ
کہ تو یہ فاصلے کر کے عبور دستک دے
غزل
کوئی تو ذہن کے در پر ضرور دستک دے
نسیم سحر