EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ سوچ کر بھی ہنس نہ سکے ہم شکستہ دل
یاران غم گسار کا دل ٹوٹ جائے گا

نریش کمار شاد




زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا

نریش کمار شاد




سنا ہے پھول جھڑے تھے جہاں ترے لب سے
وہاں بہار اترتی ہے روز شام کے ساتھ

نرجس افروز زیدی




ترے خیال سے روشن ہے سر زمین سخن
کہ جیسے زینت شب ہو مہ تمام کے ساتھ

نرجس افروز زیدی




میں رک گیا چڑھی ہوئی ندی کے سامنے
کچھ وقت میرے پاس تھا برسات کے لیے

نسیم عباسی




میں نے دیکھی ہے امیر شہر کی وہ مفلسی
دولت دنیا تھی لیکن غم کا سرمایہ نہ تھا

نسیم انصاری




میں روشنی پہ زندگی کا نام لکھ کے آ گیا
اسے مٹا مٹا کے یہ سیاہ رات تھک گئی

نسیم انصاری