وہ ایک لمحہ کہ مشکل سے کٹنے والا تھا
میں تنگ آ کے زمیں میں سمٹنے والا تھا
مرا وجود مزاحم تھا چاروں جانب سے
اسی لیے تو میں رستے سے ہٹنے والا تھا
میں تخت عشق پہ فائز تھا جانتا تھا کہاں
کہ ایک دن مرا تختہ الٹنے والا تھا
جو بات کی تھی ہوا میں بکھرنے والی تھی
جو خط لکھا تھا وہ پرزوں میں بٹنے والا تھا
یہ انتہا تھی کہ اک روز میں بھی دانستہ
غبار بن کے ہوا سے لپٹنے والا تھا
پھر اک صدا پہ مجھے فیصلہ بدلنا پڑا
میں یوں تو اس کی گلی سے پلٹنے والا تھا
نسیمؔ تازہ ہوا نے دیا تھا مجھ کو پیام
غبار دل پہ جو چھایا تھا چھٹنے والا تھا
غزل
وہ ایک لمحہ کہ مشکل سے کٹنے والا تھا
نسیم سحر