EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

محبت کے ٹھکانے ڈھونڈھتی ہے
بدن کی لا مکانی موسموں میں

نصیر احمد ناصر




رات بھر خواب دیکھنے والے
دن کی سچائیوں میں چیخ اٹھے

نصیر احمد ناصر




آؤ تجدید وفا پھر سے کریں ہم ورنہ
بات کچھ اور الجھ جائے گی سلجھانے سے

نصیر آرزو




اب نہ چاہیں گے کسی اور کو تسلیم مگر
فائدہ کیا ہے مرے سر کی قسم کھانے سے

نصیر آرزو




عشق کی عظمتیں بجا لیکن
عشق ہی مقصد حیات نہیں

نصیر آرزو




جگر میں درد تو ہے دل میں اضطراب تو ہے
تمہارے غم میں مری زندگی خراب تو ہے

نصیر آرزو




ان سے مایوس التفات نہیں
گو بظاہر توقعات نہیں

نصیر آرزو