کبھی تو سرد لگا دوپہر کا سورج بھی
کبھی بدن کے لیے اک کرن زیادہ ہوئی
نسیم سحر
لفظ بھی جس عہد میں کھو بیٹھے اپنا اعتبار
خامشی کو اس میں کتنا معتبر میں نے کیا
نسیم سحر
سفر کا مرحلۂ سخت ہی غنیمت تھا
ٹھہر گئے تو بدن کی تھکن زیادہ ہوئی
نسیم سحر
کچھ خود بھی ہوں میں عشق میں افسردہ و غمگیں
کچھ تلخئ حالات کا احساس ہوا ہے
نسیم شاہجہانپوری
میں نے مانا آپ نے سب کچھ بھلا ڈالا مگر
غیرممکن ہے کبھی میرا خیال آتا نہ ہو
نسیم شاہجہانپوری
سر محشر اگر پرسش ہوئی مجھ سے تو کہہ دوں گا
سراپا جرم ہوں اشک ندامت لے کے آیا ہوں
نسیم شاہجہانپوری
تنہائی کے لمحات کا احساس ہوا ہے
جب تاروں بھری رات کا احساس ہوا ہے
نسیم شاہجہانپوری

