جنگل مدافعت کے ہلکان ہو گئے ہیں
سب رستے آندھیوں کے آسان ہو گئے ہیں
رشتوں کا بوجھ ڈھونا دل دل میں کڑھتے رہنا
ہم ایک دوسرے پر احسان ہو گئے ہیں
آنکھیں ہیں سلگی سلگی چہرے ہیں دہکے دہکے
کن جلتی بستیوں کی پہچان ہو گئے ہیں
لوگوں کا آنا جانا معمول تھا پر اب کے
گھر پہلے سے زیادہ سنسان ہو گئے ہیں
بد قسمتی سے ہم ہیں ان کشتیوں کے وارث
جن کے ہوا سے عہد و پیمان ہو گئے ہیں
ملنا بھی پر تکلف دوری کی دل کشی بھی
اک دوجے کے لیے ہم مہمان ہو گئے ہیں
غزل
جنگل مدافعت کے ہلکان ہو گئے ہیں
مصور سبزواری