بدن کے دیوار و در میں اک شے سی مر گئی ہے
عجیب خوشبو اداسیوں کی بکھر گئی ہے
جگاؤ مت رستے خوابوں کی رت جگی تھکن کو
کہ دھوپ دالان سے کبھی کی اتر گئی ہے
فصیل سر کو بچائے رکھتا ہے وہ ابھی تک
زمیں کی پستی تو ریشے ریشے میں بھر گئی ہے
نہ ٹوٹ کر اتنا ہم کو چاہو کہ رو پڑیں ہم
دبی دبائی سی چوٹ اک اک ابھر گئی ہے
وہ رات جس میں زوال جاں کا خطر نہیں تھا
وہ رات گہرے سمندروں میں اتر گئی ہے
غزل
بدن کے دیوار و در میں اک شے سی مر گئی ہے
مصور سبزواری