ہوا رہ میں دئے طاقوں میں مدھم ہو گئے ہیں
محاذ اب دوریوں کے کتنے محکم ہو گئے ہیں
ہجوم نا شناساں میں ہے اتنا ہی غنیمت
یہ رشتے اجنبیت کے جو قائم ہو گئے ہیں
چٹانوں سے جہاں تھی گفتگوئے سخت لازم
وہیں شیریں سخن لہجے ملائم ہو گئے ہیں
مرے بچے ترا بچپن تو میں نے بیچ ڈالا
بزرگی اوڑھ کر کاندھے ترے خم ہو گئے ہیں
عذابوں سے ٹپکتی یہ چھتیں برسوں چلیں گی
ابھی سے کیوں مکیں مصروف ماتم ہو گئے ہیں
غزل
ہوا رہ میں دئے طاقوں میں مدھم ہو گئے ہیں
مصور سبزواری