کئی زمانوں کے دریائے نیل چھوڑ گیا
وہ وقت تھا جو مجھے لاکھوں میل چھوڑ گیا
نہ بھیگے ہونٹ بھی کم ظرف دشت و دریا کے
مرا حسین لہو کی سبیل چھوڑ گیا
سب ایک سے تھے طلوع و غروب جاں اس کے
جدائی میں بھی وہ نقش جمیل چھوڑ گیا
تھے اس کے ساتھ زوال سفر کے سب منظر
وہ دکھتے دل کے بہت سنگ میل چھوڑ گیا
میں مردہ پانیوں میں چاند سا رواں دیکھوں
وہ ورثے میں مجھے خواہش کی جھیل چھوڑ گیا
میں زندہ سچ تھا سمندر کی گونج کی صورت
گواہی لے نہیں پایا دلیل چھوڑ گیا
غزل
کئی زمانوں کے دریائے نیل چھوڑ گیا
مصور سبزواری