EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زمانوں بعد ملے ہیں تو کیسے منہ پھیروں
مرے لیے تو پرانی شراب ہیں مرے دوست

لیاقت علی عاصم




ذرا سا ساتھ دو غم کے سفر میں
ذرا سا مسکرا دو تھک گیا ہوں

لیاقت علی عاصم




اب نہ وہ ذوق وفا ہے نہ مزاج غم ہے
ہو بہو گرچہ کوئی تیری مثال آیا تھا

لطف الرحمن




جاتے جاتے دیا اس طرح دلاسا اس نے
بیچ دریا میں کوئی جیسے کنارہ نکلا

لطف الرحمن




کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا

لطف الرحمن




میں در بدر ہوں ابھی اپنی جستجو میں بہت
میں اپنے لہجے کو انداز دے رہا ہوں ابھی

لطف الرحمن




میں خود ہی اپنے تعاقب میں پھر رہا ہوں ابھی
اٹھا کے تو میری راہوں سے راستا لے جا

لطف الرحمن