EN हिंदी
نہیں یہ ضد کہ ہر اک درد تو مرا لے جا | شیح شیری
nahin ye zid ki har ek dard tu mera le ja

غزل

نہیں یہ ضد کہ ہر اک درد تو مرا لے جا

لطف الرحمن

;

نہیں یہ ضد کہ ہر اک درد تو مرا لے جا
جو ہو سکے تو یہ برسوں کا رت جگا لے جا

ترا تو کیا کہ خود اپنا بھی میں کبھی نہ رہا
مرے خیال سے خوابوں کا سلسلہ لے جا

کسی نے دور بہت دور سے پکارا پھر
دلوں کی قربتیں آنکھوں کا فاصلہ لے جا

نکل گیا ہوں بہت اپنی ذات سے آگے
تو مجھ سے میرے بچھڑنے کا سانحہ لے جا

میں خود ہی اپنے تعاقب میں پھر رہا ہوں ابھی
اٹھا کے تو میری راہوں سے راستا لے جا

عجیب زہر رواں ہے لہو کی گردش میں
کبھی تو شعلگئ جاں کا ذائقہ لے جا

امیر شہر مجھے حرمت ہنر ہے بہت
یہ اپنا طرۂ دستار یہ قبا لے جا