EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں
کیسی منزل ہے جہان گزراں سے آگے

لیاقت علی عاصم




کبھی یہ غلط کبھی وہ غلط کبھی سب غلط
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے

لیاقت علی عاصم




کہاں تک ایک ہی تمثیل دیکھوں
بس اب پردہ گرا دو تھک گیا ہوں

لیاقت علی عاصم




منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو

لیاقت علی عاصم




میری راتیں بھی سیہ دن بھی اندھیرے میرے
رنگ یہ میرے مقدر میں کہاں سے آیا

لیاقت علی عاصم




شام کے سائے میں جیسے پیڑ کا سایا ملے
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی

لیاقت علی عاصم




وہ جو آنسوؤں کی زبان تھی مجھے پی گئی
وہ جو بے بسی کے کلام تھے مجھے کھا گئے

لیاقت علی عاصم