میں اپنے آپ کو آواز دے رہا ہوں ابھی
غزل کے ہاتھ میں اک ساز دے رہا ہوں ابھی
اک ایک حرف مری تشنگی کا ضامن ہے
اک ایک حرف کو اعجاز دے رہا ہوں ابھی
ہوا کی زد پہ کوئی برگ زرد ہے کب سے
سو اس کے سوز کو اک ساز دے رہا ہوں ابھی
میں در بدر ہوں ابھی اپنی جستجو میں بہت
میں اپنے لہجے کو انداز دے رہا ہوں ابھی
تھما کے ہاتھ میں ان کے فضیلتوں کی سند
میں جاہلوں کو بھی اعزاز دے رہا ہوں ابھی
عجب طلسم ہے عکس نیاز و نقش ہوس
میں ربط شوق کو آغاز دے رہا ہوں ابھی
غزل
میں اپنے آپ کو آواز دے رہا ہوں ابھی
لطف الرحمن