EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں کہ اپنا ہی پتہ پوچھ رہا ہوں سب سے
کھو گئی جانے کہاں عمر گزشتہ میری

لطف الرحمن




تمام عمر مرا مجھ سے اختلاف رہا
گلہ نہ کر جو کبھی تیرا ہم نوا نہ ہوا

لطف الرحمن




ترا تو کیا کہ خود اپنا بھی میں کبھی نہ رہا
مرے خیال سے خوابوں کا سلسلہ لے جا

لطف الرحمن




مجھی سے آئی تھی ملنے اداس چاندنی رات
اگر یہ جانتا ہوتا تو جاگتا بھی میں

ایم آر قاسمی




آج کل جو کثرت شوریدگان عشق ہے
روز ہوتے جاتے ہیں حداد نوکر سیکڑوں

ماتم فضل محمد




آج مسجد میں نظر آتا تو ہے میکش مگر
مطلب اس کا بیچنا ہے شیخ کی دستار کا

ماتم فضل محمد




آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال
دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا

ماتم فضل محمد