EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہندو بچہ نے چھین کے دل مجھ سے یوں کہا
ہندوستاں بھی کشور ترکاں سے کم نہیں

ماتم فضل محمد




عشق خوباں نہیں ہے ایسی شے
باندھ کر رکھئے جس کو پڑیا میں

ماتم فضل محمد




جاں بلب دم بھر کا ہوں مہمان یار
ایک بوسہ میری مہمانی کرو

ماتم فضل محمد




جہاں سے ہوں یہاں آیا وہاں جاؤں گا آخر کو
مرا یہ حال ہے یارو نہ مستقبل نہ ماضی ہوں

ماتم فضل محمد




خط دیکھ کر مرا مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز

ماتم فضل محمد




کوئی آزاد ہو تو ہو یارو
ہم تو ہیں عشق کے اسیروں میں

ماتم فضل محمد




کیا کہوں دن کو کس قدر رویا
رات دلبر کو دیکھ کر رویا میں

ماتم فضل محمد