سنگ طفلاں کا ہدف جسم ہمارا نکلا
ہم تو جس شہر گئے شہر تمہارا نکلا
کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا
جانے مدت پہ تری یاد کدھر سے آئی
راکھ کے ڈھیر میں پوشیدہ شرارا نکلا
دل پہ کیا جانے گزر جاتی ہے کیا پچھلے پہر
اوس ٹپکی تو کہیں صبح کا تارہ نکلا
جاتے جاتے دیا اس طرح دلاسا اس نے
بیچ دریا میں کوئی جیسے کنارہ نکلا
کوئی صحرا کا حوالہ نہ سمندر کی مثال
جو بھی ڈوبا ہے جہاں دوست ہمارا نکلا
بو الہوس ضد میں سہی دار و رسن سے گزرا
اب پشیماں ہے کہ سودا یہ خسارہ نکلا
غزل
سنگ طفلاں کا ہدف جسم ہمارا نکلا
لطف الرحمن