بے خواب دریچوں میں کسی رنگ محل کے
فانوس جلائے ہیں امیدوں نے غزل کے
یادوں کے درختوں کی حسیں چھاؤں میں جیسے
آتا ہے کوئی شخص بہت دور سے چل کے
دکھ درد کے جلتے ہوئے آنگن میں کھڑا ہوں
اب کس کے لیے خلوت جاناں سے نکل کے
سوچوں میں دبے پاؤں چلے آتے ہیں اکثر
بچھڑی ہوئی کچھ سانولی شاموں کے دھندلکے
غزل
بے خواب دریچوں میں کسی رنگ محل کے
خورشید احمد جامی