کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی
دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی
ایک اک کر کے ابھرتی ہیں کئی تصویریں
سر جھکائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے کوئی
غم کی وادی ہے نہ یادوں کا سلگتا جنگل
ہائے ایسے میں کہاں چھوڑ گیا ہے کوئی
یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی
جب بھی دیکھا ہے کسی پیار کا آنسو جامیؔ
میں نے جانا مرے نزدیک ہوا ہے کوئی
غزل
کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی
خورشید احمد جامی