EN हिंदी
جاگتے غم بھی نہیں جھومتے سائے بھی نہیں | شیح شیری
jagte gham bhi nahin jhumte sae bhi nahin

غزل

جاگتے غم بھی نہیں جھومتے سائے بھی نہیں

خورشید احمد جامی

;

جاگتے غم بھی نہیں جھومتے سائے بھی نہیں
ساتھ اپنے بھی نہیں اور پرائے بھی نہیں

سینۂ ساز میں وہ گیت سلگ اٹھے ہیں
پیار بن کر جو لب ساز پہ آئے بھی نہیں

زندگانی تو خریدار ستم ہے لیکن
تم نے بازار صلیبوں کے سجائے بھی نہیں

کچھ ارادے مرے گیتوں کی تھکن ہیں اب بھی
کچھ فسانے تری آنکھوں نے سنائے بھی نہیں

دھوپ سوچوں کے در و بام تک آ پہنچی ہے
اور ایسے میں تری یاد کے سائے بھی نہیں

آرزؤں کے امنگوں کے مزاروں پہ کہیں
غم ایام نے دو پھول چڑھائے بھی نہیں

وقت کی راہ میں انجان نظر آتے ہیں
ورنہ یہ لوگ کچھ اتنے تو پرائے بھی نہیں

دور کے دیس کی پریوں کا بھروسہ کیا تھا
ہم نے خوابوں کے نئے دیپ جلائے بھی نہیں

زندگانی کے حسیں شہر میں آ کر جامیؔ
زندگانی سے کہیں ہاتھ ملائے بھی نہیں