EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

موت کی ایک علامت ہے اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا

خورشید رضوی




مرے اس اولیں اشک محبت پر نظر کر
یہ موتی سیپ میں پھر عمر بھر آتا نہیں ہے

خورشید رضوی




مجھے بھی اپنا دل رفتہ یاد آتا ہے
کبھی کبھی کسی بازار سے گزرتے ہوئے

خورشید رضوی




نسخۂ مرہم اکسیر بتانے والے
تو مرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے

خورشید رضوی




پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے
یہ وہ بھٹکا مسافر ہے جو گھر آتا نہیں ہے

خورشید رضوی




تمام عمر اکیلے میں تجھ سے باتیں کیں
تمام عمر ترے روبرو خموش رہے

خورشید رضوی




تمہاری بزم سے تنہا نہیں اٹھا خورشیدؔ
ہجوم درد کا اک قافلہ رکاب میں تھا

خورشید رضوی