EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا
دریا اتر گیا تو سمندر میں آ گیا

افضال نوید




کہ جیسے خود سے ملاقات ہو نہیں پاتی
جہاں سے اٹھا ہوا ہے خمیر کھینچتا ہوں

افضال نوید




میں نے بچپن کی خوشبوئے نازک
ایک تتلی کے سنگ اڑائی تھی

افضال نوید




رہتی ہے شب و روز میں بارش سی تری یاد
خوابوں میں اتر جاتی ہیں گھنگھور سی آنکھیں

افضال نوید




رکھ لیے روزن زنداں پہ پرندے سارے
جو نہ واں رکھنے تھے دیوان میں رکھ چھوڑے ہیں

افضال نوید




سو جاتی ہے بستی تو مکاں پچھلی گلی میں
تنہا کھڑا رہتا ہے مکینوں سے نکل کر

افضال نوید




الکھ جمائے دھونی رمائے دھیان لگائے رہتے ہیں
پیار ہمارا مسلک ہے ہم پریم گرو کے چیلے ہیں

افضل پرویز