EN हिंदी
خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا | شیح شیری
Khaali hua gilas nasha sar mein aa gaya

غزل

خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا

افضال نوید

;

خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا
دریا اتر گیا تو سمندر میں آ گیا

یکجائی کا طلسم رہا طاری ٹوٹ کر
وہ سامنے سے ہٹ کے برابر میں آ گیا

جا کر جہاں پہ رکھا تھا ہونا کیا درست
اتنا سا کام کر کے میں پل بھر میں آ گیا

لیکن بڑائی کا کوئی احساس کب رہا
چکر تھا دنیا داری کا چکر میں آ گیا

آ جا کے منحصر رہا نگرانی پر تمام
اکثر سے جا رہا کبھی اکثر میں آ گیا

یک گوشۂ وجود میں رکھا قیام کچھ
باہر بڑا فساد تھا سو گھر میں آ گیا

ٹوٹا کہیں سے اور گرا صحن میں مرے
سارا پرندہ یوں لگا اس پر میں آ گیا

آواز دوں گا ساتھ مرے آ سکو تو آؤ
تھوڑا جو اور حالت بہتر میں آ گیا

دنیا کے خواب دیکھتے گزرا تمام روز
اٹھتے ہی خواب اصل سے دفتر میں آ گیا

جاگوں گا جب صدائے الوہی سنوں گا کچھ
جانوں گا جب پرندہ صنوبر میں آ گیا

شاید نظارے کی یہی بے ہیئتی رہی
منظر سے جانے پر کوئی منظر میں آ گیا

ہلنا پڑے نہ تاکہ کسی رنج پر مجھے
سارے کا سارا میں کسی پتھر میں آ گیا

خود کو قیام کرنے پہ ترغیب دوں گا میں
کوئی جو اسم کل مرے منتر میں آ گیا

بے مرتبہ بھی سانس کا لینا گراں نہ تھا
تقدیس کا خیال مقدر میں آ گیا

بازار میں نگاہ نہ دل پر پڑی تری
نایاب جنس دہر تھا وافر میں آ گیا

سیارگاں تو اپنی روش پر تھے گامزن
لیکن نویدؔ تو کہاں چکر میں آ گیا