EN हिंदी
آنچل میں نظر آتی ہیں کچھ اور سی آنکھیں | شیح شیری
aanchal mein nazar aati hain kuchh aur si aankhen

غزل

آنچل میں نظر آتی ہیں کچھ اور سی آنکھیں

افضال نوید

;

آنچل میں نظر آتی ہیں کچھ اور سی آنکھیں
چھا جاتی ہیں احساس پہ بلور سی آنکھیں

رہتی ہے شب و روز میں بارش سی تری یاد
خوابوں میں اتر جاتی ہیں گھنگھور سی آنکھیں

پیمانے سے پیمانے تلک بادۂ لعلیں
آغاز سے انجام تلک دور سی آنکھیں

لے کر کہاں رہتی رہی موتی سی وہ صورت
لے کر کہاں پھرتا رہا میں گور سی آنکھیں

وقت آنے پہ آئی نہ نظر گردش افلاک
بیٹھا رہا لے کر میں کسی اور سی آنکھیں

تبدیلی ترے دیکھتے رہنے سے یہ آئی
بن بیٹھیں تسلسل سے ترے طور سی آنکھیں

بالفرض نکل جاؤں کسی اندھے سفر پر
باندھے ہوئے رکھتی ہیں مجھے ڈور سی آنکھیں

ہر بار کنارے سے لگا کر چلی جائیں
دھندلاھٹوں میں غمزۂ فی الفور سی آنکھیں

کیا جانے نویدؔ اور ہی کر جائیں اجالا
قرطاس فروزاں پہ تری کور سی آنکھیں