ایک اجلی امنگ اڑائی تھی
ہم نے تم نے پتنگ اڑائی تھی
شام بارش میں تیرے چہرے سے
ابر نے قوس رنگ اڑائی تھی
میں نے بچپن کی خوشبوئے نازک
ایک تتلی کے سنگ اڑائی تھی
اپنی ہی ازرہ تفنن طبع
دھجیٔ نام و ننگ اڑائی تھی
خواب نے کس خمار کی خاشاک
درمیان پلنگ اڑائی تھی
کوئی بیرونی آنچ تھی جس نے
اندرونی ترنگ اڑائی تھی
چھین کر ایک دوسرے کی بقا
ہم نے تضحیک جنگ اڑائی تھی
اہتمام دھمال کھو بیٹھا
کس نے خاک ملنگ اڑائی تھی
میرے چاروں طرف لبوں کی دھنک
اس نے لگتے ہی انگ اڑائی تھی
ہم نے پوچھا نہیں ہماری انا
کس سے ہو کر دبنگ اڑائی تھی
پھلجھڑی تھی کہ تیرے کوچے میں
تان گا کر تلنگ اڑائی تھی
خود سے تھا بیر پانی میں رہ کر
ہم نے موج نہنگ اڑائی تھی
ایک دن ہم نے ہاتھ پھیلا کر
چادر پائے تنگ اڑائی تھی
پرخچے چاروں اور بکھرے تھے
اک بدن نے سرنگ اڑائی تھی
پھینک کر اپنے دوستوں کی طرف
عز و جاہ خدنگ اڑائی تھی
ذائقہ جا سکا نہ منہ سے نویدؔ
دعوت شوخ و شنگ اڑائی تھی
غزل
ایک اجلی امنگ اڑائی تھی
افضال نوید