EN हिंदी
ہم نے کچھ پنکھ جو دالان میں رکھ چھوڑے ہیں | شیح شیری
humne kuchh pankh jo dalan mein rakh chhoDe hain

غزل

ہم نے کچھ پنکھ جو دالان میں رکھ چھوڑے ہیں

افضال نوید

;

ہم نے کچھ پنکھ جو دالان میں رکھ چھوڑے ہیں
پنچھی آ جائیں گے اس دھیان میں رکھ چھوڑے ہیں

سربلندی ہو کہ اے رہ گزر دل ہم نے
سارے جھگڑے ہی تری شان میں رکھ چھوڑے ہیں

ایسا آشوب توازن تھا کہ پتھر سارے
کھینچ کر پلۂ میزان میں رکھ چھوڑے ہیں

سوچتا ہوں کہ وہ ایمان ہی لے آئے کبھی
رخنے کچھ ایسے بھی ایمان میں رکھ چھوڑے ہیں

رکھ لیے روزن زنداں پہ پرندے سارے
جو نہ واں رکھنے تھے دیوان میں رکھ چھوڑے ہیں

ایسے کچھ دن بھی تھے جو ہم سے گزارے نہ گئے
واپسی کے کسی سامان میں رکھ چھوڑے ہیں

آج کا دن ہے کسی باد حنا چلنے کا دن
آج کے لمحے اسی شان میں رکھ چھوڑے ہیں