وقت کے طوفانی ساگر میں کرودھ کپٹ کے ریلے ہیں
لیکن آس کے مانجھی ہر لحظہ موجوں سے کھیلے ہیں
پگ پگ کانٹے منزلوں صحرا کوسوں جنگل بیلے ہیں
سفر زیست کٹھن ہے یارو راہ میں لاکھ جھمیلے ہیں
الکھ جمائے دھونی رمائے دھیان لگائے رہتے ہیں
پیار ہمارا مسلک ہے ہم پریم گرو کے چیلے ہیں
راہزنوں سے گھبرا کر سب ساتھی سنگت چھوڑ گئے
اور پر خوف ڈگر پر گرم سفر ہم آج اکیلے ہیں
حسن کی دولت اس کی ہے اور وصل کی عشرت بھی اس کی
جس نے پل پل ہجر میں کاٹا جور سہے دکھ جھیلے ہیں
بازی گاہ دار و رسن میں میکدۂ فکر و فن میں
ہم رندوں سے رونق ہے ہم درویشوں سے میلے ہیں
جیون کی کومل ابلا کا سوئمبر رچنے والا ہے
آؤ صلائے عام ہے سب کو جتنے بھی البیلے ہیں
غزل
وقت کے طوفانی ساگر میں کرودھ کپٹ کے ریلے ہیں
افضل پرویز