اپنے ہی تلے آئی زمینوں سے نکل کر
آ جاتا ہوں شاخوں پہ دفینوں سے نکل کر
دروازے تھے کچھ اور بھی دروازے کے پیچھے
برسوں پہ گئی بات مہینوں سے نکل کر
سو جاتی ہے بستی تو مکاں پچھلی گلی میں
تنہا کھڑا رہتا ہے مکینوں سے نکل کر
کس صبح تماشا کا بچایا ہوا سجدہ
رخ پر چلا آتا ہے جبینوں سے نکل کر
ایسی کوئی آسان ہے دیوانگی یارو
آئی بھی تو آئے گی قرینوں سے نکل کر
وہ اور کوئی ابر ہے جو کھلتا نہیں ہے
سر پر جو کھڑا رہتا ہے سینوں سے نکل کر
مدت سے مرے راستے میں آیا ہوا ہے
پتھر سا کوئی تیرے نگینوں سے نکل کر
اک روز جو دیوار تھی وہ ہم نے گرا دی
پانی میں چلے آئے سفینوں سے نکل کر
یہ دیکھ مرا نخل کتب ہائے درخشاں
جو پھیل گیا خون پسینوں سے نکل کر
آ جاتے ہیں ساحل پہ دکھانے ہمیں منہ لوگ
تاریکی میں ڈوبے ہوئے زینوں سے نکل کر
اک دین ہے ہم جیسوں کی آشفتہ سری کو
تھم رہتا ہے آفاق پہ دینوں سے نکل کر
زیریں کہیں رہتی ہے تپسیا سے بھری لہر
بدھ اور ہے اندوہ نشینوں سے نکل کر
مسمار عجائب جو ہوا جنگ و جدل سے
مٹی کے ظروف آ گئے مینوں سے نکل کر
ہم راہ اثاثوں کی کہاں ڈھونڈ سکیں گے
آیا نہ اگر سانپ خزینوں سے نکل کر
اطراف در و بام ہی لے بیٹھیں گے مجھ کو
گر قصد چہارم نہ ہو تینوں سے نکل کر
پھر سامنا ہوگا مرا اپنی ہی مشیں سے
آیا بھی جو بالفرض مشینوں سے نکل کر
دنیا کو پروئے گا نویدؔ ایک لڑی میں
آئے گا کوئی خاک نشینوں سے نکل کر
غزل
اپنے ہی تلے آئی زمینوں سے نکل کر
افضال نوید