یہ بھی شاید زندگی کی اک ادا ہے دوستو
جس کو ساتھی مل گیا وہ اور تنہا ہو گیا
افضل منہاس
زندگی اتنی پریشاں ہے یہ سوچا بھی نہ تھا
اس کے اطراف میں شعلوں کا سمندر دیکھا
افضل منہاس
زندگی کی ظلمتیں اپنے لہو میں رچ گئیں
تب کہیں جا کر ہمیں آنکھوں کی بینائی ملی
افضل منہاس
ایسے کچھ دن بھی تھے جو ہم سے گزارے نہ گئے
واپسی کے کسی سامان میں رکھ چھوڑے ہیں
افضال نوید
ایام کے غبار سے نکلا تو دیر تک
میں راستوں کو دھول بنا دیکھتا رہا
افضال نوید
دروازے تھے کچھ اور بھی دروازے کے پیچھے
برسوں پہ گئی بات مہینوں سے نکل کر
افضال نوید
جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں
ہو گیا اوجھل مگر اوجھل سے میں نکلا نہیں
افضال نوید