دکھائی دے کہ شعاعبصیر کھینچتا ہوں
غبار کھینچ جگر کا لکیر کھینچتا ہوں
دکھائی دیتا ہوں تنہا سفینے میں لیکن
کنارے لگتے ہی جم غفیر کھینچتا ہوں
مرے جلو سے کوئی کہکشاں نہیں بچتی
میں کھینچنے پہ جو آؤں اخیر کھینچتا ہوں
امڈ پڑی ہے جو یکسر خزاں کے دھارے سے
گلابی نگہ ناگزیر کھینچتا ہوں
فشار پڑتا ہے گہرا کوئی رگ و پے میں
کلی کلی سے سبوئے عبیر کھینچتا ہوں
کہ جیسے خود سے ملاقات ہو نہیں پاتی
جہاں سے اٹھا ہوا ہے خمیر کھینچتا ہوں
ہزاروں آئنہ ہر لحظہ خالی ہوتے ہیں
پلٹ پلٹ کے وہی عکس پیر کھینچتا ہوں
مفاہمت سے جو حد پار ہو تو ہو جائے
بندھا ہوا رگ جاں سے ضمیر کھینچتا ہوں
جن آسمانوں میں سیال وقت ساکت ہے
کمند ڈال وہاں جوئے شیر کھینچتا ہوں
مگر ہوا و ہوس پر ہی خرچ ہو جائے
ہر ایک جھونکے سے باد کثیر کھینچتا ہوں
ارادے بھانپ ترے جا دھڑکتا ہے در پر
پڑا ہوا پس زنداں اسیر کھینچتا ہوں
بغیر بھید نہ ان ہونی سے بچا جائے
پلٹ کے آتا ہے اکثر جو تیر کھینچتا ہوں
طلسم زلف حفاظت کا پنجرہ ہو جیسے
مزے جہان کے ہو کر اسیر کھینچتا ہوں
یہ دیکھ کار جہاں نے نہ دھجیاں چھوڑیں
تری گلی کی طرف اب شریر کھینچتا ہوں
نویدؔ کر تو دیا شہر آئنہ پامال
اب اندرونی صف دار و گیر کھینچتا ہوں
غزل
دکھائی دے کہ شعاعبصیر کھینچتا ہوں
افضال نوید