EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

لمحہ منصف بھی ہے مجرم بھی ہے مجبوری کا
فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے

آفتاب اقبال شمیم




پھر سے تالیف دل ہو پھر کوئی
اس صحیفے کی رونمائی کرے

آفتاب اقبال شمیم




یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم




گھر غیر کے جو یار مرا رات سے گیا
جی سینے سے نکل گیا دل ہات سے گیا

آفتاب شاہ عالم ثانی




یا سال و ماہ تھا تو مرے ساتھ یا تو اب
برسوں میں ایک دن کی ملاقات سے گیا

آفتاب شاہ عالم ثانی




دیکھ کر اس کو لگا جیسے کہیں ہو دیکھا
یاد بالکل نہیں آیا مجھے گھنٹوں سوچا

آفتاب شمسی




جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے
اب آر پار یہ پتھر دکھائی دیتا ہے

آفتاب شمسی