لمحہ منصف بھی ہے مجرم بھی ہے مجبوری کا
فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے
آفتاب اقبال شمیم
پھر سے تالیف دل ہو پھر کوئی
اس صحیفے کی رونمائی کرے
آفتاب اقبال شمیم
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیم
گھر غیر کے جو یار مرا رات سے گیا
جی سینے سے نکل گیا دل ہات سے گیا
آفتاب شاہ عالم ثانی
یا سال و ماہ تھا تو مرے ساتھ یا تو اب
برسوں میں ایک دن کی ملاقات سے گیا
آفتاب شاہ عالم ثانی
دیکھ کر اس کو لگا جیسے کہیں ہو دیکھا
یاد بالکل نہیں آیا مجھے گھنٹوں سوچا
آفتاب شمسی
جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے
اب آر پار یہ پتھر دکھائی دیتا ہے
آفتاب شمسی