گھر غیر کے جو یار مرا رات سے گیا
جی سینے سے نکل گیا دل ہات سے گیا
میں جان سے گیا تری خاطر ولیک حیف
تو مجھ سے ظاہری بھی مدارات سے گیا
یا سال و ماہ تھا تو مرے ساتھ یا تو اب
برسوں میں ایک دن کی ملاقات سے گیا
دیکھا جو بات کرتے تجھے رات غیر سے
دل میرا ہاتھ سیتی اسی بات سے گیا
اس رشک مہ کی بزم میں جاتے ہی آفتابؔ
دل سا رفیق میرا مرے سات سے گیا

غزل
گھر غیر کے جو یار مرا رات سے گیا
آفتاب شاہ عالم ثانی