پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے
کوئی یہ سوکھی ہوئی ڈار ہری کر جائے
جب بھی اقرار کی کچھ روشنیاں جمع کروں
میری تردید مری بے بصری کر جائے
معدن شب سے نکالے زر خوشبو آ کر
آئے یہ معجزہ باد سحری کر جائے
کثرتیں آئیں نظر ذات کی یکتائی میں
یہ تماشا کبھی آشفتہ سری کر جائے
لمحہ منصف بھی ہے مجرم بھی ہے مجبوری کا
فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے
اس کا معیار ہی کیا روز بدل جاتا ہے
چھوڑیئے! وہ جو اگر ناقدری کر جائے
غزل
پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے
آفتاب اقبال شمیم