دیر تک رات اندھیرے میں جو میں نے دیکھا
مجھ سے بچھڑے ہوئے اک شخص کا چہرہ ابھرا
قسمیں دے دے کے مرے ہاتھوں نے مجھ کو روکا
میں نے دیوار سے کل نام جب اس کا کھرچا
دیکھ کر اس کو لگا جیسے کہیں ہو دیکھا
یاد بالکل نہیں آیا مجھے گھنٹوں سوچا
موم بتی کو گلاتا رہا دھیرے دھیرے
رات اندھیرے کا مرے کمرے میں بہتا لاوا
کتنے مغموم غزالوں کا بھرم رکھتا ہے
نرم کپڑے سے تراشا ہوا کالا برقعہ
قدر اب ہو کہ نہ ہو ذہن رسا کی لیکن
آ ہی جاتا ہے کبھی کام یہ کھوٹا سکہ
سارے دن میری طرح جلتا ہے اور شام ڈھلے
ہر بن مو سے لپٹ جاتا ہے میرا سایا
اپنے ہونٹوں پہ سجا لیتا ہوں میں جھوٹی ہنسی
اپنی پلکوں میں چھپا لیتا ہوں جلتا دریا
مان لو میری جو ہے اس پہ قناعت کر لو
اب نہیں اترے گا اس دنیا میں من و سلویٰ
غزل
دیر تک رات اندھیرے میں جو میں نے دیکھا (ردیف .. ٰ)
آفتاب شمسی