EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو
تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے

آفتاب حسین




دل اور دنیا دونوں کو خوش رکھنے میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم




عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم




کہا تھا کس نے کہ شاخ نحیف سے پھوٹیں
گناہ ہم سے ہوا بے گناہیوں جیسا

آفتاب اقبال شمیم




خواب کے آگے شکست خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا

آفتاب اقبال شمیم




کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں

آفتاب اقبال شمیم




لفظوں میں خالی جگہیں بھر لینے سے
بات ادھوری، پوری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم