ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو
تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے
آفتاب حسین
دل اور دنیا دونوں کو خوش رکھنے میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم
کہا تھا کس نے کہ شاخ نحیف سے پھوٹیں
گناہ ہم سے ہوا بے گناہیوں جیسا
آفتاب اقبال شمیم
خواب کے آگے شکست خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا
آفتاب اقبال شمیم
کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں
آفتاب اقبال شمیم
لفظوں میں خالی جگہیں بھر لینے سے
بات ادھوری، پوری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم