نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اسے عمر بھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
ذرا سی غیب کی لکنت زبان میں لاؤ
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
نہیں تو تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا آفریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
غزل
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیم