ترے بدن کے گلستاں کی یاد آتی ہے
خود اپنی ذات کے صحرا کو پار کرتے ہوئے
آفتاب حسین
وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی
یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے
آفتاب حسین
وہ سر سے پانو تک ہے غضب سے بھرا ہوا
میں بھی ہوں آج جوش طلب سے بھرا ہوا
آفتاب حسین
وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ
کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں
آفتاب حسین
وہ یوں ملا تھا کہ جیسے کبھی نہ بچھڑے گا
وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
آفتاب حسین
یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح
گزر گیا وہ اسے بھی غبار کرتے ہوئے
آفتاب حسین
یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا
کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ کہیں
آفتاب حسین