EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ترے بدن کے گلستاں کی یاد آتی ہے
خود اپنی ذات کے صحرا کو پار کرتے ہوئے

آفتاب حسین




وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی
یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے

آفتاب حسین




وہ سر سے پانو تک ہے غضب سے بھرا ہوا
میں بھی ہوں آج جوش طلب سے بھرا ہوا

آفتاب حسین




وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ
کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں

آفتاب حسین




وہ یوں ملا تھا کہ جیسے کبھی نہ بچھڑے گا
وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

آفتاب حسین




یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح
گزر گیا وہ اسے بھی غبار کرتے ہوئے

آفتاب حسین




یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا
کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ کہیں

آفتاب حسین