جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے
اب آر پار یہ پتھر دکھائی دیتا ہے
جو اپنے آپ سے لڑنے کو بڑھتا ہے آگے
لہو میں اپنے وہی تر دکھائی دیتا ہے
تمام خلق کو پتھر بنا گیا کوئی
مجھے یہ خواب اب اکثر دکھائی دیتا ہے
زمین ساتھ مرا چھوڑتی ہے جب تو فلک
جھکا ہو مرے سر پر دکھائی دیتا ہے
غزل
جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے
آفتاب شمسی