EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جو ساتھ لائے تھے گھر سے وہ کھو گیا ہے کہیں
ارادہ ورنہ ہمارا بھی واپسی کا تھا

آفتاب شمسی




میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا
یہ خوف ہے کہ اب انساں نہ آ کے کھا لے کوئی

آفتاب شمسی




نام اپنا ہی میں سب سے کھڑا پوچھ رہا تھا
کچھ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا تھا

آفتاب شمسی




راہ تکتے جسم کی مجلس میں صدیاں ہو گئیں
جھانک کر اندھے کنوئیں میں اب تو کوئی بول دے

آفتاب شمسی




سبھی ہیں اپنے مگر اجنبی سے لگتے ہیں
یہ زندگی ہے کہ ہوٹل میں شب گزاری ہے

آفتاب شمسی




طوفان کی زد میں تھے خیالوں کے سفینے
میں الٹا سمندر کی طرف بھاگ رہا تھا

آفتاب شمسی




اے میرے مصور نہیں یہ میں تو نہیں ہوں
یہ تو نے بنا ڈالی ہے تصویر کوئی اور

افضال فردوس